ہے اگر شمشیرِ قاتل کو روانی پر گھمنڈ
ہے اگر شمشیرِ قاتل کو روانی پر گھمنڈ
بسملوں کو بھی ہے اپنی سخت جانی پر گھمنڈ
ناز اٹھانے کا ہے اس کے حوصلہ اے جاں راز
اب تلک تجھ کو ہے زور نا توانی پر گھمنڈ
نوبتِ شاہی سے آتی ہے صدا شام وسحر
اور کرلے چار دن اس دارِ فانی پر گھمنڈ
ایکھ او نادان کہ پیری کا زمانہ ہے قریب
کیا لڑکپن ہے کہ کرتاہے جوانی پر گھمنڈ
چارہی نالے ہمارے سن کے چپکی لگ گئی
تھا بہت بلبل کو اپنی خوش بیانی پر گھمنڈ
عفو کی قابل مرے اعمال کب ہیں اے کریم
تیری رحمت پر ہے تیری مہر بانی پر گھمنڈ
شمع محفل شامت آئی ہے تیری خاموش ہو
دل جلوں کے سامنے آتش زبانی پر گھمنڈ
طبع شاعرِ آ کے زوروں پر کرے کیونکہ نہ ناز
سب کو ہوتاہے جوانی میں جوانی پر گھمنڈ
دیکھنے والوں کی آنکھیں آپ نے دیکھی نہیں
حق بجانب ہے اگر ہے لن ترانی پر گھمنڈ
عاشق ومعشوق اپنے اپنے عالم میں ہیں مست
واں نزاکت پر تویاں ہے ناتوانی پر گھمنڈ
توسہی کلمہ تر پڑھوا کے چھوڑوں اے صنم
زاہدوں کو ہے بہت تسبیح خوابی پر گھمنڈ
گور میں کہتی ہے عبرت قیصر و فغفور سے
کیوں نہیں کرتے ہو اب صاحب قرانی پر گھمنڈ
ہے یہی تاثیر آبِ خنجرِ جلاّد میں
چشمۂ حیواں نہ کر تو اپنے پانی پر گھمنڈ
چار موجوں میں ہماری چشمِ تر کے رہ گیا
ابرِ نیساں کو یہی تھا دُر فشانی پر گھمنڈ
سبزۂ خط جلد یارب رُخ پر اس کے ہو نمود
خضر کو ہے اپنی عمر جاودانی پر گھمنڈ
حال پر اجداد و آبا کے تفاخر کیا امیرؔ
ہیں وہ ناداں جن کو ہے قصے کہانی پر گھمنڈ
- کتاب : کلام امیر مینائی (Pg. 51)
- Author : امیر مینائی
- مطبع : مشورہ بک ڈپو، دہلی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.