خط جو نکلا بوسۂ رخسار آساں ہو گیا
خط جو نکلا بوسۂ رخسار آساں ہو گیا
کارواں آنے سے نرخ حسن ارزاں ہو گیا
کیا ہمارے گور پر ہے احتیاج روشنی
چار جگنو جب چمک نکلے چراغاں ہو گیا
سوز غم میں کچھ نہ پوچھو جلد تن کا مجھ سے حال
جل کے یہ کاغذ شراروں سے چراغاں ہو گیا
میرے چشم تر سے ہم چشمی کا رکھتا تھا خیال
پانی پانی یہ ہوا یا دل کہ باراں ہو گیا
دیکھ قاتل اپنے دیوانے کا جذب شوق قتل
جب گلے سے مل گیا خنجر گریباں ہو گیا
او کماندار اس کو کہتے ہیں ہجوم درد و غم
تنگئ دل سے سمٹ کر تیر پیکاں ہو گیا
آسیائے چشم لیلیٰ نے یہ پیسا دشت میں
بخت مجنوں سرمۂ چشم غزالاں ہو گیا
بوسۂ گیسو پہ اس نے ذبح کر ڈالا مجھے
ایک کافر کے لئے خون مسلماں ہو گیا
تھا مسلماں جب تلک مشتاق کافر تھا وہ بت
یہ ہوا کافر تو وہ ضدی مسلماں ہو گیا
نامۂ اعمال ہے جب تک نہیں ملتا امیرؔ
میرے ہاتھ آیا یہ اور میرا گریباں ہو گیا
- کتاب : Asli Guldasta-e-Qawwali (Pg. 5)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.