جبیں پر قشقۂ آرائی تو دل میں کفر سامانی
جبیں پر قشقۂ آرائی تو دل میں کفر سامانی
ارے او نامسلماں اس پہ دعوائے مسلمانی
ارے او مٹنے والے خاک کے ذروں میں مل مل کر
ہوئی ہے تیرے ہی قدموں سے تعمیرِ جہاں بانی
ارے او دست پروردہ ذبیح اعظمِ حق کے
تیری فطرت میں کیوں باقی نہیں اب ذوقِ قربانی
ارے دامن ترا اور ایک ٹکڑے کے لئے پھیلے
ترے ہی در پہ ہوتی تھی کبھی قیصر کی مہمانی
یہ کیا ہے اس نئی رو میں بہا جاتا ہے کیوں ایسا
کبھی پہلے بھی ساحل تک تری آئی تھی طغیانی
ارے او تاج رکھنے والے سر پہ آدمیت کے
ترے ہی در پہ ہوتی تھی کبھی قیصر کی مہمانی
ارے ہشیار ہو اٹھ خواب سے ڈاکو کلیسا کے
چرا کر بھاگے جاتے ہیں تری آیاتِ قرآنی
نہ باتوں میں اثر باقی نہ نالوں میں اثر باقی
مگر باقی ہے اے ظالم وہی تیری غزل خوانی
بروں آ از چمن گر نغمہائے خوش نمی داری
کہ نعشِ بلبلِ خاموش افزا ید پریشانی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.