تقویٰ کو چھوڑ چھاڑ کے گھبرا کے پی گیا
تقویٰ کو چھوڑ چھاڑ کے گھبرا کے پی گیا
توبہ کو توڑ تاڑ کے تھرا کے پی گیا
دختِ جوان تاک کو بہلا کے پی گیا
بل کھا کے پی گیا کبھی لہرا کے پی گیا
دستِ حنا نے ساغر و مینا کیا جو پیش
محفل میں مثلِ شمعِ نو مسکا کے پی گیا
خورشیدِ مہ لقا کی نگاہِ شراب کیش
مثلِ شفق وہ جام میں تھرا کے پی گیا
ہر سو صدائے نفسی تھی ہر گام العطش
اپنے ہی سائے سے بھی وہ گھبرا کے پی گیا
ہیں پارسا و عابد و زاہد مگر میں آج
پیر مغاں کے غمزہ میں شہ پا کے پی گیا
ہے دامنِ دراز مگر دست و پا ہی شل
ساقی کے پائے ناز پہ سر لا کے پی گیا
مجھ رند و بد خمار کو پابوسی بھی نصیب
زاہد جلو میں بیٹھ کے لہرا کے پی گیا
ہو غرق مئے تمام یہی آرزو مری
چھلکا کے پی گیا کبھی برسا کے پی گیا
برسائی جو شراب کھلے لہلہائے گل
لایا صراحی جام وہ مسکا کے پی گیا
گر آ گیا بھی ہوش زمانے سے کیا مجھے
دنیا ئے پُر فریب کو ٹھکرا کے پی گیا
ساغر نہیں شراب نہیں اوک بھی معاف
ان کی نگاہِ ناز کو تھرا کے پی گیا
زاہد و رند و برہمن و شیخ تشنہ کام
میں جام اس کے جام سے ٹکڑا کے پی گیا
مارا کبھی ہے شیخ نے اسلاف نے کبھی
آخر مرے حبیب کے در آکے پی گیا
حسنِ تمام ساغر و مینا میں ہے حلول
ہر قطرہ میں وہ جلوۂ مہ پا کے پی گیا
تھیں رحمتِ تمام کی ساری لطافتیں
ساقی کی اک ادا میں جو لہرا کے پی گیا
پیری میں بھی شباب کی باتیں کہیں رہیں
انورؔ بوقتِ شام یوں بل کھا کے پی گیا
- کتاب : بادۂ کہن (Pg. 83)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.