وہ ہم نہ بھی جو کسی معرکہ سے ٹل جاتے
وہ ہم نہ بھی جو کسی معرکہ سے ٹل جاتے
اشارہ تیغ کا ہوتا تو سر کے بل جاتے
ترے مریض جو وحشت کی چال چل جاتے
خمیر خاک سے مانند مو نکل جاتے
ذقن سے ہو کے رہا گیسوؤں میں دل پھنستا
اچھالتا جو کنواں اژدہے نگل جاتے
ہمیشہ ہم سے کجی پر رہے ترے ابرو
یہ نیمچے وہ نہ بھی جن کے بل نکل جاتے
کبھی تو تم کو چھڑکنی تھی زلف پر افشاں
اندھیری رات تھی اس میں چراغ جل جاتے
ہزار تیز روی کرتے قافلہ والے
ہم آگے صورت بانگ جرس نکل جاتے
وہ عاشق مژہ ہوں رشک سے ہوا میں ہلاک
فسوں گردوں کو جو دیکھا چہرہ نگل جاتے
پھنسے ہیں چاہ زنخداں میں اب تو واعظ بھی
جو ہم گرے تو گرے بھی وہی سنبھل جاتے
ہماری توبہ بھی توبہ بھی کوئی اے ساقی
ذرا جو دیکھتے بدلی ابھی بدل جاتے
دکھاتا اتنی تو تاثیر گریہ یعقوب
دیار مصر میں اندھے کنویں ابل جاتے
چراغ خوب ہوا میرے قبر پر نہ جلا
ادھر ادھر کے پتنگے غریب جل جاتے
بہار لالہ و گل زلف سبزہ و سنبل
مزہ تھا ہم جو گلستان میں آج کل جاتے
زمانہ بھی کسی معشوق کا مزاج ہے کیا
ذرا بھی دیر نہیں ہے اسے بدل جاتے
جنون جو گوشۂ عزلت میں یہ کرم کرتا
ابھی تو نام کے مانند ہم نکل جاتے
فلک نے کھانے کو اتنا غم دیا ہوتا
کہ چار روز میری زندگی چل جاتے
اسیرؔ آنکھ دکھاتا ہر ہمیں صیاد
قسم تو کیا قفس جسم سے نکل جاتے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.