Font by Mehr Nastaliq Web
Sufinama

وہ ہم نہ بھی جو کسی معرکہ سے ٹل جاتے

اسیر لکھنوی

وہ ہم نہ بھی جو کسی معرکہ سے ٹل جاتے

اسیر لکھنوی

MORE BYاسیر لکھنوی

    وہ ہم نہ بھی جو کسی معرکہ سے ٹل جاتے

    اشارہ تیغ کا ہوتا تو سر کے بل جاتے

    ترے مریض جو وحشت کی چال چل جاتے

    خمیر خاک سے مانند مو نکل جاتے

    ذقن سے ہو کے رہا گیسوؤں میں دل پھنستا

    اچھالتا جو کنواں اژدہے نگل جاتے

    ہمیشہ ہم سے کجی پر رہے ترے ابرو

    یہ نیمچے وہ نہ بھی جن کے بل نکل جاتے

    کبھی تو تم کو چھڑکنی تھی زلف پر افشاں

    اندھیری رات تھی اس میں چراغ جل جاتے

    ہزار تیز روی کرتے قافلہ والے

    ہم آگے صورت بانگ جرس نکل جاتے

    وہ عاشق مژہ ہوں رشک سے ہوا میں ہلاک

    فسوں گردوں کو جو دیکھا چہرہ نگل جاتے

    پھنسے ہیں چاہ زنخداں میں اب تو واعظ بھی

    جو ہم گرے تو گرے بھی وہی سنبھل جاتے

    ہماری توبہ بھی توبہ بھی کوئی اے ساقی

    ذرا جو دیکھتے بدلی ابھی بدل جاتے

    دکھاتا اتنی تو تاثیر گریہ یعقوب

    دیار مصر میں اندھے کنویں ابل جاتے

    چراغ خوب ہوا میرے قبر پر نہ جلا

    ادھر ادھر کے پتنگے غریب جل جاتے

    بہار لالہ و گل زلف سبزہ و سنبل

    مزہ تھا ہم جو گلستان میں آج کل جاتے

    زمانہ بھی کسی معشوق کا مزاج ہے کیا

    ذرا بھی دیر نہیں ہے اسے بدل جاتے

    جنون جو گوشۂ عزلت میں یہ کرم کرتا

    ابھی تو نام کے مانند ہم نکل جاتے

    فلک نے کھانے کو اتنا غم دیا ہوتا

    کہ چار روز میری زندگی چل جاتے

    اسیرؔ آنکھ دکھاتا ہر ہمیں صیاد

    قسم تو کیا قفس جسم سے نکل جاتے

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے