دیکھ کر بانکی ادا اک بانیٔ بیداد کی
دیکھ کر بانکی ادا اک بانیٔ بیداد کی
دل میں درد ایسا ہوا بے ساختہ فریاد کی
ہم اٹھائیں ناز تم کو خوش کریں راضی رکھیں
تم نہ پوچھو بات بھی میرے دل ناشاد کی
آرزو تھی خاک بھی ہو کر نہ چھوڑیں کوئے دوست
تو نے اے باد صبا مٹی مری برباد کی
نخوت و خود بینی و کبر و غرور و سرکشی
ان حسینوں میں ہیں یہ سب خصلتیں شداد کی
نیند بھی کم آئی دیکھے خواب میں کہسار بھی
جب کہانی رات کو ہم نے سنی فرہاد کی
ایک دن بھولے سے بھی یاد خدا ہم نے نہ کی
ان بتوں کی عاشقی میں زندگی برباد کی
مشغلہ تھا اے جنوں یہ دشت اور کہسار میں
تربتیں میں نے بنائیں قیس اور فرہاد کی
نیمچہ چھوٹا سا نازک ہاتھ اس پر کم سنی
زخم گر اوچھے لگے تو کیا خطا جلاد کی
داغ دل زخم جگر سوز دروں اور آہ سرد
لائے یہ دو چار سوغاتیں مراد آباد کی
کام بگڑے بن گئے مشکل سے چھٹکارا ہوا
حضرت وارث نے جب اوگھٹؔ مری امداد کی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.