غم الفت کو بھی محبوب جاں کہنا ہی پڑتا ہے
غم الفت کو بھی محبوب جاں کہنا ہی پڑتا ہے
بساط داغ دل کو گلستاں کہنا ہی پڑتا ہے
کسی بے مہر کو جب مہرباں کہنا ہی پڑتا ہے
تو دل کا قتل ہے اور الاماں کہنا ہی پڑتا ہے
نگاہ یار تونے راز دل کے کہہ دئے کیا کیا
تری چشمک کو انداز بیاں کہنا ہی پڑتا ہے
سوال دوست پر اندیشۂ ترک محبت سے
نہیں کہنے کی حالت میں بھی ہاں کہنا ہے پڑتا ہے
مری تقدیر تجھ پر منحصر ٹھہری تو پھر تجھ کو
خدا اک اور زیر آسماں کہنا ہی پڑتا ہے
محبت موجزن ہے اور امنگوں میں تلاطم ہے
ہمارے دل کو بحر بیکراں کہنا ہی پڑتا ہے
دیار یار تک تیری رسائی ہے جو نا ممکن
اسے دل تیری مرگ ناگہاں کہنا ہی پڑتا ہے
اثرؔ اس عرصہ گاہ عشق میں دیکھے ترے جوہر
ضعیفی میں تجھے آخر جواں کہنا ہی پڑتا ہے
- کتاب : تذکرۂ ہندو شعرائے بہار (Pg. 145)
- Author : فصیح الدین بلخی
- مطبع : نینشل بک سینٹر، ڈالٹین گنج پلامو (1961)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.