تری صورت کہ معصوم و حسیں معلوم ہوتی ہے
تری صورت کہ معصوم و حسیں معلوم ہوتی ہے
مجھے غارت گر ایمان و دیں معلوم ہوتی ہے
محبت پھولتی پھلتی نہیں معلوم ہوتی ہے
یہ جلوہ گاہ دل بنجر زمیں معلوم ہوتی ہے
تصور جب تمہارے گیسوئے پر خم کا آتا ہے
محبت ایک مار آستیں معلوم ہوتی ہے
تمہاری ہے وفائی ہو گئی ہے نقش دل جب سے
تمہاری ہاں بھی اے ظالم نہیں معلوم ہوتی ہے
محبت ہے فریب حسن ہی کا نام دنیا میں
تمہاری بات ناصح دل نشیں معلوم ہوتی ہے
اڑا کر لے گئی ہے ہائے جو صبر و سکوں میرے
تمہاری ہی نگاہ واپسیں معلوم ہوتی ہے
ہمارے خانۂ دل سے کبھی باہر نہیں جاتی
تمہاری یاد بھی پردہ نشیں معلوم ہوتی ہے
تمہارا ہی تصور ہے بہل جاتا ہے جی جس سے
وگرنہ زندگی اندوہگیں معلوم ہوتی ہے
تمہارے حسن رنگیں میں کشش ہی اور ہے ورنہ
مجھے ہر چیز دنیا کی حسیں معلوم ہوتی ہے
محبت جس کی ڈینگیں مارتے ہو اے جہاں والو
ذرا دل ڈھونڈ کر دیکھو کہیں معلوم ہوتی ہے
ملیں گے کیا اثرؔ دیر و حرم مجھ مست و بیخود کو
مجھے تو راہ گھر کی بھی نہیں معلوم ہوتی ہے
- کتاب : تذکرۂ ہندو شعرائے بہار (Pg. 156)
- Author : فصیح الدین بلخی
- مطبع : نینشل بک سینٹر، ڈالٹین گنج پلامو
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.