آسماں پر کالے بادل چھا گئے
آسماں پر کالے بادل چھا گئے
گھر کے اندر آئنے دھندلا گئے
کیا غضب ہے ایک بھی کوئل نہیں
سب بغیچے آم کے منجرا گئے
گھٹتے بڑھتے فاصلوں کے درمیاں
دفعتاً دو راستے بل کھا گئے
ڈوبتا ہے آ کے سورج ان کے پاس
وہ دریچے میرے دل کو بھا گئے
شہر کیا دنیا بدل کر دیکھ لو
پھر کہو گے ہم تو اب اکتا گئے
سامنے تھا بے رخی کا آسماں
اس لئے واپس زمیں پر آ گئے
یاد آیا کچھ گرا تھا ٹوٹ کر
بے خودی میں خود سے کل ٹکرا گئے
حرمت لوح و قلم جاتی رہی
کس طرح کے لوگ ادب میں آ گئے
ہم ہیں مجرم آپ ملزم بھی نہیں
آپ کس انجام سے گھبرا گئے
ہو گئی ہے شعلہ زن ہر شاخ گل
بڑھ رہے تھے ہاتھ جو تھرا گئے
دھنس گئے جو رک گئے تھے راہ میں
دیکھتے تھے مڑ کے جو پتھرا گئے
گھر کی تنہائی جب آنگن ہو گئی
یہ ستارے کیا قیامت ڈھا گئے
تھے مخاطب جسم لہجے بے شمار
جاں بہ لب ارماں خلشؔ غزلا گئے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.