Font by Mehr Nastaliq Web
Sufinama

وہی صبح جس میں مجھ کو تیری کچھ خبر نہ آئے

بہزاد لکھنوی

وہی صبح جس میں مجھ کو تیری کچھ خبر نہ آئے

بہزاد لکھنوی

MORE BYبہزاد لکھنوی

    وہی صبح جس میں مجھ کو تیری کچھ خبر نہ آئے

    میرے دورِ زندگی میں کبھی وہ سحر نہ آئے

    مری چشمِ جستجو کی یہ عجیب آرزو ہے

    کہ کبھی وہ سامنے ہو کبھی وہ نظر نہ آئے

    مجھے غم نہیں خوشی ہے یہی درد زندگی ہے

    میری چارہ سازیوں کو کوئی چارہ گر نہ آئے

    میرے غم کی کیا دوا ہو، مجھے کس طرح شفا ہو

    میرا ذوق دید کیا جو تو ہی نظر نہ آئے

    تیرے میکدے کا ہم نے یہ عجیب طور دیکھا

    کہ جو آئے بے خبر ہو، کوئی باخبر نہ آئے

    میری پر حجاب نظر و ذرا اتنا دھیان رکھنا

    کہ وہ سامنے بھی آئے تو تمہیں نظر نہ آئے

    نہیں لطف بندگی کا نہیں کیف زندگی کا

    جو جبیں کے پاس کھینچ کر ترا سنگِ در نہ آئے

    وہ حرم کہ بت کدہ ہو، وہ چمن کہ میکدہ ہو

    وہاں جا کے ہم کریں جہاں تو نظر نہ آئے

    میرا حال کب زبوں ہے، یہ تڑپ نہیں سکوں ہے

    مجھے چین یا الٰہی کبھی عمر بھر نہ آئے

    تھی یگانہ وہ نظر بیگانہ بن کر رہ گئی

    زندگی افسانہ در افسانہ بن کر رہ گئی

    قہقہوں سے کب میرا ٹوٹا ہوا دل جڑ سکا

    بے بسی پھر زینتِ کاشانہ بن کر رہ گئی

    عام ہوتا کس طرح رازِ نہانِ میکدہ

    تشنگی رہنِ حدِ میخانہ بن کر رہ گئی

    اے ہجوم نامرادی اے وفور بیخودی

    مستئی دل آخرش ویرانہ بن کر رہ گئی

    دل میں تو نے کی تو اپنی ہوہ فرمائی مگر

    یہ تجلی بھی چراغ خانہ بن کر رہ گئی

    اب تیری آنکھوں میں بھی آنسو نظر آنے لگی

    تیری دنیا بھی میرا غم خانہ بن کر رہ گئی

    یا الٰہی کون آیا ہے نقاب الٹے ہوئے

    شمعِ محفلِ آج کیوں پروانہ بن کر رہ گئی

    کیا مزہ دینے لگا اس کو سجودِ سنگِ در

    کیوں جبین وقفِ بتِ بت خانہ بن کر رہ گئی

    عاشقی کی کشمکش بہزادؔ ایسی چیز ہے

    زندگی ٹوٹا ہوا پیمانہ بن کر رہ گئی

    مأخذ :

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے