یوں تو جو چاہے یہاں صاحب محفل ہو جائے
بزم اس شخص کی ہے تو جسے حاصل ہو جائے
ناخدا اے مری کشتی کے چلانے والے
لطف تو جب ہے کہ ہر موج ہی ساحل ہو جائے
اس لیے چل کے ہر اک گام پے رک جاتا ہوں
تا نہ بے کیف غم دورئ منزل ہو جائے
تجھ کو اپنی ہی قسم یہ تو بتا دے مجھ بے
کیا یہ ممکن ہے کبھی تو مجھے حاصل ہو جائے
ہائے اس وقت دل زار کا عالم کیا ہو
گر محبت ہی محبت کے مقابل ہو جائے
پھیکا پھیکا ہے مری بزم محبت کا چراغ
تم جو آ جاؤ تو کچھ رونق محفل ہو جائے
تیری نظریں جو ذرا مجھ پے کرم فرمائیں
تیری نظروں کی قسم پھر یہی دل دل ہو جائے
ہوش اس کے ہیں یہ جام اس کا ہے تو ہے اس کا
مے کدہ میں ترے جو شخص بھی غافل ہو جائے
فتنہ گر شوق سے بہزادؔ کو کر دے پامال
اس سے تسکین دلی گر تجھے حاصل ہو جائے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.