ان کے بے دیکھے نہیں رہتی طبیعت میری
ان کے بے دیکھے نہیں رہتی طبیعت میری
اب تو خوبوں کی محبت ہوئی عادت میری
بے اثر اشک کیے، آہ نے تاثیر نہ کی
مفت برباد ہوئی نَے ہائے یہ دولت میری
زلف بگڑی جو ہوا سے تو گئے اپنے حواس
اتنے ہی پر ہوئی برباد جمعیت میری
ایک دامن ہی کو کیا روتے ہو بیٹھے بشاش
آگے کیا کیا نہ دکھائے گی یہ وحشت میری
مرے مرنے پہ ذرا کیوں نہ ہو حسرت میری
ہائے کس ناز سے ٹھکراتے ہیں تربت میری
جیتے مہجور رہا، مر کے تیری قرب سے دور
جینے مرنے میں برابر رہی قسمت میری
ایک بھی بات کا پورا نہیں ملتا ہے جواب
اس کی لکنت سے بڑھی اور بھی دقت میری
آدمی کیا کہ فرشتوں کو بھی رشک آتا ہے
جب وہ یک ناز سے ٹھکراتے ہیں تربت میری
- کتاب : تذکرہ شعرائے ہنود (Pg. 017)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.