یہ بھی ہے غنیمت کہ سرِ محفلِ اغیار
یہ بھی ہے غنیمت کہ سرِ محفلِ اغیار
وہ دیکھ مجھے لیتے ہیں دزدیدہ نظر سے
بے جرم کیا تُو نے ہمیں کشتهٔ شمشیر
آخر یہ ملا حاصل تیری الفت کے ثمر سے
چورنگ نے کیا مشقِ ستم نے تیرے ہم کو
غمزہ سے، اشارہ سے، تغافل سے، نظر سے
گریہ نے مری آتشِ غیرت بھی بجھا دی
جلتے نہیں اغیار بھی رونے کے اثر سے
وہ دن ہو کہ پھر قاتلِ پرچم کو دیکھوں
پھر تیغ کا بوسہ لوں سب زخمِ جگر سے
ہے وصل کی محرومی جاوید کا پیغام
خط اس نے جو لکھ بھیجا ہے سیمرغ کے پر سے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.