کب میں سوتی زلف میں دلدار کے
کب میں سوتی زلف میں دلدار کے
مار زلفیں ہیں یہ دنداں مار کے
قتل کرتے ہو جہاں جاتے ہو تم
کیا چلن سیکھے ہو یہ تلوار کے
بوئے گل ہے نازکی سے ان کو یار
ہارِ گل پھینکیں نہ کیوں وہ ہار کے
کب گلِ لالہ میں ہیں یہ داغِ دل
زخم میں بلبل تیرِ عیـنِ منقار کے
مر رہے ہیں ہجر میں دلدار کے
تشنہ لب ہیں شربتِ دیدار کے
مار لکھا جس نے زلفِ یار کو
بس نکالا ان سے اس کو مار کے
بلبلو یاں لطف میں گلزار کے
پھول جھڑتے ہیں سنا بسنے یار کے
بعد مدت اس نے بلایا تو ہائے
پاؤں پھولے طاقتِ رفتار کے
- کتاب : تذکرہ شعرائے ہنود (Pg. 18)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.