بے رخی ان کی ہر ادا میں ہے
بے رخی ان کی ہر ادا میں ہے
دل خدا جانے کس ہوا میں ہے
اک جھلک اس کی ابتدا میں ہے
آزمائش جو انتہا میں ہے
زہد میں ہے نہ اتقا میں ہے
زندگی معتبر وفا میں ہے
قصے اوروں کے سن رہا ہے کوئی
داستاں میری التوا میں ہے
خیر یا رب مرے نشیمن کی
برق بے تاب پھر گھٹا میں ہے
زلف کی چیرہ دستیا تو
آدمی پنجۂ بلا میں ہے
جس طرف چاہے اس کا رخ پھیرے
ناؤ اب دست ناخدا میں ہے
وہ غرور جمال میں گم ہیں
مدعی عرض مدعا میں ہے
راس آیا نہ جامہ ہستی
آدمی تنگ سی قبا میں ہے
اور کچھ ہو نصیرؔ میں کہ نہ ہو
سیر چشمی ترے گدا میں ہے
- کتاب : کلیات نصیرؔ گیلانی (Pg. 698)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.