قصر جاناں تک رسائی ہو کسی تدبیر سے
قصر جاناں تک رسائی ہو کسی تدبیر سے
طائر جاں کے لئے پر مانگ لوں میں تیر سے
ان کو کیا دھوکہ ہوا مجھ ناتواں کو دیکھ
میری صورت کیوں ملاتے ہیں مری تصویر سے
گالیاں دے کر بجائے قم کے اے رشک مسیح
آپ نے مردے جلائے ہیں نئی تدبیر سے
صدقے اے قاتل ترے مجھ تشنۂ دیدار کی
تشنگی جاتی رہی آب دم شمشیر سے
عشوے سے غمزے سے شوخی سے ادا سے ناز سے
مٹنے والا ہوں مٹا دیجے کسی تدبیر سے
اک سوال وصل پر دو دو سزائیں دیں مجھے
تیغ سے کاٹا زباں کو سی دیے لب تیر سے
کچھ نہ ہو اے انقلاب آسماں اتنا تو ہو
غیر کی قسمت بدل جائے میری تقدیر سے
زندگی سے کیوں نہ ہو نفرت کہ محو زلف ہوں
قید ہستی مجھ کو بیدمؔ کم نہیں زنجیر سے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.