بھٹی کو چلا کیا ہوتے سحر پوچھو تو کوئی سجادؔ ستی
بھٹی کو چلا کیا ہوتے سحر پوچھو تو کوئی سجادؔ ستی
تھا رات تلک تو کام اس کو اشغال ستی اوراد ستی
ٹک میری طرف سے باد صبا جا کر کہہ صیاد ستی
اب جان لبوں پر بلبل کے پہنچی ہے تری بیداد ستی
تنہائی فرقت میں کیا کیا اپنا نہ یہ دل گھبراوے ہے
پہلے ہے جو ٹک یہ ناشدنی تو صرف تمہاری یاد ستی
جب آگ دھدکتی ہو اس پر مت چھیٹیو تیل خدا را تم
کیا دل کی خوشی کو پوچھو ہو اے یارو اک ناشاد ستی
اے باد سحر اے موج صبا لے جلد ہماری آ کے خبر
نکلا ہے ہمارا کام سدا تیری ہی فقط امداد ستی
من پایا ہے اس نے دل میرا کعبہ ہے گھر اللہ کا ہے
اب کھود کے اس کو پھکوا دے وہ بت نہ کہیں بنیاد ستی
جو دیکھ کے ہم کو ہاتھ ملے پچھتاوے اور افسوس کرے
بتلا دو کوئی کریں شکوہ کیا ایسے ستم ایجاد ستی
ٹھانا تو بہت اب جا دیں گے ہرگز نہ کسو کے کوچے میں
ہر بار مگر مجبور رہے ہم اپنے دل ناشاد ستی
توڑا ہے وہ کب کا تقویٰ کو بھٹی میں تو اس کے گزرے ہے
سجادۂ و مسجد کی بابت مت پوچھو کچھ سجادؔ ستی
- کتاب : بہار میں اردو کی صوفیانہ شاعری (Pg. 123)
- Author : محمد طیب ابدالی
- مطبع : اسرار کریمی، الہ آباد (1988)
- اشاعت : First
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.