دیکھ کے بے خودی مری آج وہ مسکرا دیا
دلچسپ معلومات
(روزنامہ ’’ندیم ‘‘ بھوپال۔ جشن، سالگرہ فروری ۱۹۳۹ء)
دیکھ کے بے خودی مری آج وہ مسکرا دیا
عشق جنوں مزاج نے حسن کو گدگدا دیا
پہلے تو درد عشق سے حسن نے تلملا دیا
پھر اسی درد عشق کو وجہ سکوں بنا دیا
سر بہ سجود دیکھ کر در سے مجھے اٹھا دیا
میں نے سوال کیا کیا اس نے جواب کیا دیا
جذبۂ ضبط درد نے اپنا اثر دکھا دیا
حسن کو عشق کر دیا عشق کو دل بنا دیا
حسن نظر نواز سے شکوۂ بے رخی غلط
عشق کا ولولہ دیا درد کا حوصلہ دیا
اک ادائے دل ربا اک نگاہ جاں ستاں
جلوۂ رنگ رنگ نے کیف جنوں بڑھا دیا
وہ ہیں ادھر عتاب میں دل ہے ادھر عذاب میں
ذوق طلب نے کیوں مجھے جلوۂ التجا دیا
دل میں تڑپ جگر میں درد سینہ میں ایک چمک سی ہے
میری فضائے قلب کو عشق نے جگمگا دیا
نغمۂ جاں نواز میں نالۂ دل گداز میں
عشق کا ماجرا ہی کیا جس نے سنا سنا دیا
یاس و امید یوں رہیں راہ طلب میں ساتھ ساتھ
چار قدم ہٹا دیا چار قدم بڑھا دیا
کتنی لطیف ہے ذکیؔ کیفیت جنون کی
ہنسنے لگا رلا دیا رونے لگا ہنسا دیا
- کتاب : تذکرہ شعرائے وارثیہ (Pg. 184)
- مطبع : فائن بکس پرنٹرس (1993)
- اشاعت : First
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.