دیدہ و دل میں مرے رکھا ہے کیا اے تخم اشک
دیدہ و دل میں مرے رکھا ہے کیا اے تخم اشک
رنگ پیدا کر زمیں میں مل کے دانے کی طرح
صورت آئینہ اے دل تا کجا دیدار رخ
خاک چھان اب کوچۂ گیسو میں شانے کی طرح
درد دل اول تو وہ عاشق کا سنتے ہی نہیں
اور جو سنتے ہیں تو سنتے ہیں فسانے کی طرح
ناوک انداز نگہ اچھی نہیں یہ تانک جھانک
اڑ نہ جائے دیکھنا کوئی نشانے کی طرح
بادہ خوار تم کو کیا خورشید محشر کا ہے خوف
چھا رہا ہے ابر رحمت شامیانے کی طرح
جب کبھی آتا ہے دل میں تیری چوٹی کا خیال
چوٹ پڑتی ہے جگر پر تازیانے کی طرح
ایک بار اے برق تکلیف اور کر جھگڑا مٹے
پھونک دے مجھ کو بھی میرے آشیانے کی طرح
تم تو آتے ہی قیامت کرتے ہو صاحب بپا
دل میں آتے ہو تو آؤ گھر میں آنے کی طرح
در سے کعبے کے نہیں اٹھتا سر اپنا اس لئے
اس میں بھی کچھ کچھ ہے تیرے آستانے کی طرح
او کماں ابرو ادھر بھی سرسری کوئی نگاہ
تیر کے مشتاق ہم بھی ہیں نشانے کی طرح
دل کو آ جاتا ہے یاد سوزن مژگاں سے چین
زخم میں اچھی ہے یہ ٹانکے لگانے کی طرح
کتنے بے درد اس زمانے کے اطبا ہیں امیرؔ
حال بیماروں کا سنتے ہیں فسانے کی طرح
- کتاب : کلام امیر مینائی (Pg. 43)
- Author : امیر مینائی
- مطبع : مشورہ بک ڈپو، دہلی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.