دونوں جانب اگر آرزو وصل کی کوئی طوفاں اٹھائے تو میں کیا کروں
دونوں جانب اگر آرزو وصل کی کوئی طوفاں اٹھائے تو میں کیا کروں
عبدالہادی کاوش
MORE BYعبدالہادی کاوش
دونوں جانب اگر آرزو وصل کی کوئی طوفاں اٹھائے تو میں کیا کروں
عشق انہیں گدگدائے تو وہ کیا کریں حسن مجھ کو بلائے تو میں کیا کروں
جانتا ہوں یہ الفت اک آزار ہے دل لگائے وہ جو جاں سے بیزار ہے
میری نظروں میں دل میں سما کر کوئی اپنی نگری بسائے تو میں کیا کروں
چاہتا تھا میں کعبہ میں جا کر رہوں رات و دن باب رحمت پہ سجدے کروں
جسم میں روح میں ہر رگ و پے میں وہ خود ہی آ کر سمائے تو میں کیا کروں
واعظا بات تو نے پتے کی کہی لڑکھڑایا وہی دخت رز جس نے پی
مست نظریں اٹھا کر سر بزم وہ جام الفت پلائے تو میں کیا کروں
دین و ایماں کیا اور کیا ہے دھرم کھول دیا اب تو نام خدا نے بھرم
چشم مرشد نے کی ایسی جادوگری کچھ بھی مجھ کو نہ بھائے تو میں کیا کروں
سر جھکا دوں یہاں تو نے سچ ہی کہا یہ ہیں الفت کے آداب و رسم وفا
دیکھ کر روئے جاناں مگر ناصحا ہوش مجھ کو نہ آئے تو میں کیا کروں
مل گیا راہ میں مجھ کو جب وہ صنم لاکھ دل کو سنبھالا کیا ضبط غم
دل میں حسرت لئے چند آنسو مگر دفعتاً مسکرائے تو میں کیا کروں
آپ ہیں ابتدا آپ ہیں انتہا اے وصیٔ نبی اے علی مرتضیٰ
کفر ہے جانتا ہوں یہ کہنا مگر جب یقیں دل کو آئے تو میں کیا کروں
کس کو سجدے کروں کس کی پوجا کروں اپنے ہی نام کی کیوں نہ مالا جپوں
منزل عشق پر آ کے جب آدمی عکس اپنا ہی پائے تو میں کیا کروں
علم اور فضل کے دین و ایمان کے عقل پر میری کاوشؔ تھے پردے پڑے
سارے پردے اٹھا کر کوئی اب مجھے اپنا جلوہ دکھائے تو میں کیا کروں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.