وہ خوابوں سے منظر سہانے لگے ہیں
وہ خوابوں سے منظر سہانے لگے ہیں
سمندر میں دریا نہانے لگے ہیں
شرافت متانت امانت دیانت
یہ دستور سارے پرانے لگے ہیں
مری آرزو کو نچوڑا جو اس نے
تو کچھ ہوش میرے ٹھکانے لگے ہیں
تو ہی کچھ بتا اے مری زندگی اب
ترے ناز ہم کیوں اٹھانے لگے ہیں
شرافت کہاں گم ہوئی تو نہ جانے
تجھے پالنے اک زمانے لگے ہیں
کا بھی تو کس کس کا ہم اعتبار اب
بڑے خود غرض دوستانے لگے ہیں
اجالوں کی خیرات ہم کو نہ دیجیے
اندھیرے ہمیں راس آنے لگے ہیں
خیالوں کی اس بھیڑ میں ان دنوں ہم
کئی شعر کہنے سنانے لگے ہیں
اسے ہم نے دیکھا ہے جاویدؔ جب سے
تخیل کے پر پھڑپھڑا نے لگے ہیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.