فلک سے داد پا جاؤں عدالت ہو تو ایسی ہو
فلک سے داد پا جاؤں عدالت ہو تو ایسی ہو
جدا ہوتے ہیں وہ ہم سے قیامت ہو تو ایسی ہو
رخ معنی دکھائی دے جو صورت ہو تو ایسی ہو
دل صاف آئینہ بن جائے حیرت ہو تو ایسی ہو
دل بے مدعا پایا جو دولت ہو تو ایسی ہو
خدا سے پھر نہ کچھ مانگا قناعت ہو تو ایسی ہو
مرا ہر حرف نکلا شعلہ زار وادیٔ ایمن
بہار جلوۂ رنگ طبیعت ہو تو ایسی ہو
مروں بھی اب کہ سانس آنے کی گنجائش نہیں باقی
ہجوم یاس کی سینے میں کثرت ہو تو ایسی ہو
ہم ایسے غرق دریائے گنہ جنت میں جا نکلے
توان لطمۂ موج شفاعت ہو تو ایسی ہو
قد خم ہے گریباں گیر کنٹھا بن کے قاتل کا
مگر بے تابیٔ ذوق شہادت ہو تو ایسی ہو
فرشتے سر جھکائیں تیرے سجدہ کو تواضع سے
سن او مٹی کے پتلے آدمیت ہو تو ایسی ہو
اگر دانا ملا پانی نہ طفل اشک نے مانگا
وہی دانا وہی پانی قناعت ہو تو ایسی ہو
نہ دن بھر چین آتا ہے نہ نیند آتی ہے راتوں کو
کسی کے حال پر ان کی عنایت ہو تو ایسی ہو
تعجب ہے کہ تجھ کو اپنے سینے میں نہ کیوں ڈھونڈھا
کسی کو اپنی ہستی سے جو غفلت ہو تو ایسی ہو
دل کافر کی اندھیاری معاذ اللہ معاذ اللہ
مگر تاریکیٔ شب ہائے فرقت ہو تو ایسی ہو
جہاں ملنے کی ٹھہرے مجھ سے میں بھی اے صنم گم ہوں
سوا تیرے نہ ہو کوئی جو خلوت ہو تو ایسی ہو
گرا جو قطرۂ خوں لالہ زار داغ حسرت ہے
مگر شادابیٔ رنگ شہادت ہو تو ایسی ہو
پکارا اس نے اپنا نام لے کر رات آسیؔ کو
نہیں اب کچھ بھی غیریت محبت ہو تو ایسی ہو
- کتاب : دیوان آسیؔ (Pg. 45)
- Author : آسیؔ غازیپوری
- مطبع : سبحان اللہ عظیم گورکھپوری (1938)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.