دنیائے تصور ہم آباد نہیں کرتے
دنیائے تصور ہم آباد نہیں کرتے
یاد آتے ہو تم خود ہی ہم یاد نہیں کرتے
وہ جور مسلسل سے باز آ تو گئے لیکن
بیداد یہ کیا کم ہے بیداد نہیں کرتے
ساحل کے تماشائی ہر ڈوبنے والے پر
افسوس تو کرتے ہیں امداد نہیں کرتے
کچھ درد کی شدت ہے کچھ پاس محبت ہے
ہم آہ تو کرتے ہیں فریاد نہیں کرتے
صحرا سے بہاروں کو لے آئے چمن والے
اور اپنے گلستاں کو آباد نہیں کرتے
ہم مصلحتاً اپنا افسانہ بھلا بیٹھے
کچھ یاد نہیں آتا کچھ یاد نہیں کرتے
آزاد کیا خود کو زنداں سے اسیروں نے
ذہنوں کو غلامی سے آزاد نہیں کرتے
شاید کہ یہی آنسو کام آئیں محبت میں
ہم اپنی متاع غم برباد نہیں کرتے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.