Font by Mehr Nastaliq Web
Sufinama

فقط قضیہ یہی ہے فن طبعی اور الٰہی میں

میر محمد بیدار

فقط قضیہ یہی ہے فن طبعی اور الٰہی میں

میر محمد بیدار

MORE BYمیر محمد بیدار

    فقط قضیہ یہی ہے فن طبعی اور الٰہی میں

    جو علم معرفت چاہے تو رہ یاد الٰہی میں

    سمجھتا ہے اسی کا جلوہ گہ غیب شہادت کو

    نہیں کچھ فرق عارف کو سفیدی و سیاہی میں

    نہیں آرام مجھ کو اضطراب دل سے سینہ میں

    کہ دریا مضطرب ہوتا ہے بیتابیٔ ماہی میں

    نہ کر مستوں سے کاوش ہر گھڑی آمان کہتا ہوں

    خلل آ جائے گا زاہد تری عصمت پناہی میں

    جگا کر خواب آسائش سے بیدارؔ آہ ہستی میں

    عدم آسود گاں کو لا کے ڈالا ہے تباہی میں

    جو کیفیت ہے مستی سے تری آنکھوں کی لالی میں

    نہیں وہ نشۂ رنگیں شراب پرتگالی میں

    سرو برگ خوشی اے گل بدن تجھ بن کہاں مجھ کو

    گلستان دل آیا فوج غم کی پائمالی میں

    در دنداں ہوئے تھے موجزن کس بحر خوبی کے

    کہ موتی شرم سے پانی ہوئے سلک لالی میں

    جہاں وہ شکریں لب گفتگو میں آوے اے طوطی

    سخن سرسبز تیرا کب ہو واں شیریں مقالی میں

    عبث ہے آرزوئے خوش دلی بیدارؔ گردوں سے

    مے راحت جو چاہے سو کہاں اس جام خالی میں

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے