Font by Mehr Nastaliq Web

تمہارے ہجر میں اب تو یہ حالت ہے مرے دل کی

فوق رامپوری

تمہارے ہجر میں اب تو یہ حالت ہے مرے دل کی

فوق رامپوری

MORE BYفوق رامپوری

    تمہارے ہجر میں اب تو یہ حالت ہے مرے دل کی

    جلن ہے شمعِ محفل کی تڑپ ہے مرغِ بسمل کی

    نتیجہ کیا ارے قاتل اب اس اشک ندامت سے

    نہیں دھلنے کی دامن سے یہ چھینٹیں خونِ بسمل کی

    نہ گلشن میں بہار آئی نہ آثار جنوں ہم میں

    ادھر تیاریاں ہونے لگیں طوق و سلاسل کی

    غلط دھوکا مجھے ہوتا تھا شب کو تیری آہٹ کا

    دھڑکتا تھا جو دل کانوں میں آتی تھی بہاروں کی

    کسی حیلہ بہانے کی ضرورت اب نہیں اس کی

    اجل نے کھول دیں جتنی تھیں راہیں کوئے قاتل کی

    کہاں کا مدرسہ بت خانہ میخانہ حرم کیسا

    ملیں ہیں آگے چل کر ساری راہیں ایک منزل کی

    یہ دو صفتیں ہیں اس میں جس پہ اب دل چاہے مر جائے

    کبھی اعجاز عیسیٰ ہے کبھی ہے شان قاتل کی

    کلام فوقؔ سے اظہار دردِ آشنائی ہے

    غزل اس کو نہ سمجھو غم سے نکلی ہے فغاں دل کی

    مأخذ :
    • کتاب : آئینۂ تغزل (Pg. 96)

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY
    بولیے