تمہارے ہجر میں اب تو یہ حالت ہے مرے دل کی
تمہارے ہجر میں اب تو یہ حالت ہے مرے دل کی
جلن ہے شمعِ محفل کی تڑپ ہے مرغِ بسمل کی
نتیجہ کیا ارے قاتل اب اس اشک ندامت سے
نہیں دھلنے کی دامن سے یہ چھینٹیں خونِ بسمل کی
نہ گلشن میں بہار آئی نہ آثار جنوں ہم میں
ادھر تیاریاں ہونے لگیں طوق و سلاسل کی
غلط دھوکا مجھے ہوتا تھا شب کو تیری آہٹ کا
دھڑکتا تھا جو دل کانوں میں آتی تھی بہاروں کی
کسی حیلہ بہانے کی ضرورت اب نہیں اس کی
اجل نے کھول دیں جتنی تھیں راہیں کوئے قاتل کی
کہاں کا مدرسہ بت خانہ میخانہ حرم کیسا
ملیں ہیں آگے چل کر ساری راہیں ایک منزل کی
یہ دو صفتیں ہیں اس میں جس پہ اب دل چاہے مر جائے
کبھی اعجاز عیسیٰ ہے کبھی ہے شان قاتل کی
کلام فوقؔ سے اظہار دردِ آشنائی ہے
غزل اس کو نہ سمجھو غم سے نکلی ہے فغاں دل کی
- کتاب : آئینۂ تغزل (Pg. 96)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.