پس مردن ارادہ دل میں تھا جو کوئے قاتل کا
لحد میں خوش ہوا میں نام سن کر پہلی منزل کا
غبار دشت مجنوں کو یہی لیلیٰ سے محبت تھی
بگولا جو اٹھا اس نے نہ چھوڑا ساتھ محمل کا
زمین عشق میں ہم دانہ ہائے اشک بوتے ہیں
بجز لا حاصلی خرمن نہیں کچھ اپنے حاصل کا
چھڑایا ایک ہی تلوار میں زندان ہستی سے
دہان زخم سے واجب ہے مجھ کو شکر قاتل کا
عزیزؔ اس سے نہ کیجئے گر وہ مانگے جان شیریں بھی
جواب تلخ سے دل توڑیئے ہرگز نہ سائل کا
تنزل کا سبب ہے یہ کمال حسن ہے تیرا
کہ لازم آ پڑا ہے روز گھٹنا ماہ کامل کا
نہیں ہوتا ہے کار بستہ وا اپنوں سے دنیا میں
کہاں ناخن نے عقدہ آج تک کھولا انامل کا
جسے خورشید محشر زاہدان خشک کہتے ہیں
سپند سوختہ ہے شعلہ رخساروں کی محفل کا
پس مردن یقیں ہے اس سے بھی بوئے وفا آئے
کوئی عطار غافلؔ عطر کھینچے گر مری گل کا
مأخذ :
- کتاب : Asli Guldasta-e-Qawwali (Pg. 15)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.