گھر گھر تجلیاں ہیں طلب گار بھی تو ہو
گھر گھر تجلیاں ہیں طلب گار بھی تو ہو
موسیٰ سا کوئی طالب دیدار بھی تو ہو
دل درد ناک چاہیے لاکھوں ہیں خوبرو
عیسیٰ ہیں سیکڑوں کوئی بیمار بھی تو ہو
گر ہم نہیں تو رونق بازار عشق کیا
اے حسن خود فروش خریدار بھی تو ہو
پردے میں چاہتا ہے کہ ہنگامہ ہو بپا
اے آفتاب حشر نمودار بھی تو ہو
اتنی اداس صحبت مے واہ مے کشو
دست سبو میں شیخ کی دستار بھی تو ہو
زاہد امید رحمت حق اور ہجو مے
پہلے شراب پی کے گنہ گار بھی تو ہو
سوؤں میں آ کے دھوپ سے پاؤں اماں مگر
راضی تمہارا سایۂ دیوار بھی تو ہو
ساقی اداس کیوں نہ ہو بزم مے و سبو
مے خانہ میں امیرؔ سا مے خوار بھی تو ہو
- کتاب : کلام امیر مینائی (Pg. 108)
- Author : امیر مینائی
- مطبع : مشورہ بک ڈپو، دہلی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.