Font by Mehr Nastaliq Web
Sufinama

گھیرے ہوئے کشتی کو ہے طوفاں بھی بھنور بھی

عرش گیاوی

گھیرے ہوئے کشتی کو ہے طوفاں بھی بھنور بھی

عرش گیاوی

MORE BYعرش گیاوی

    گھیرے ہوئے کشتی کو ہے طوفاں بھی بھنور بھی

    حاصل ہے مجھے گھر بھی یہاں لطف سفر بھی

    جن آنکھوں سے دیکھا تھا ادھر دیکھ ادھر بھی

    کیا چیز ہے ظالم تری دزدیدہ نظر بھی

    اتنا ہے ادب آمد گل رو کا چمن میں

    خاموش ہیں بیٹھے ہوئے مرغان سحر بھی

    بیدار وہ ہو جاتے تھے غنچوں کی چٹک سے

    اب ان کو جگاتا نہیں چلا کے گجر بھی

    معمور تصور سے یہ ہے خانۂ دل آج

    اس شیشے میں تصویر ادھر بھی ہے ادھر بھی

    لخت جگرو اشک نہیں موئے مژہ پر

    دیکھو شجر خشک میں گل بھی ہے ثمر بھی

    خون شہدا رنگ مگر لائے گا اک روز

    آفت کوئی آ جائے گی شمشیر کے سر بھی

    کی محفل اغیار میں جھک کر اسے تسلیم

    ہنس کر کہا زندہ ہے ابھی تو کہیں مر بھی

    لو اور سنو شعر مرے سن کے وہ بولا

    آتا ہے بجز اس کے کوئی اور ہنر بھی

    کس طرح نہ پہلو میں رقیبوں کو جگہ دے

    آغوش میں ہر سنگ کے ہوتا ہے شرر بھی

    تم قبر پر آئے ہو مری پھول چڑھانے

    مجھ پر ہے گراں سایۂ برگ گل تر بھی

    شیشے کی طرح صاف ہے اتنا تن نازک

    آتا ہے لطافت سے نظر عکس نظر بھی

    پروانے گرے پڑتے تھے اس بزم میں لاکھوں

    سر دھنتی تھی حسرت سے کھڑی شمع سحر بھی

    مٹھی میں ہے دل ان کی سن لو پھر یہ ڈھیٹھائی

    واللہ جو ہو مرے فرشتوں کو خبر بھی

    کس شان سے وہ آئے تھے گلگشت چمن کو

    اک رقص کے عالم میں تھے مرغان سحر بھی

    تو وہ گل رعنا ہے جو آ جائے چمن میں

    جھوما کریں اک وجد کے عالم میں شجر بھی

    آرام کسی کو بھی نہیں بحر جہاں میں

    گردش میں جو ہے موج تو چکر میں بھنور بھی

    تھا بعد فنا بھی یہ غضب ضعف کا عالم

    پہونچی نہ وہاں تک مرے مرنے کی خبر بھی

    منزل تھی عدم کی خس و خاشاک سے یہ پاک

    دامن پہ نہ رہرو کے پڑی گرد سفر بھی

    معراج مری خاک نے پائی یہ ہوا سے

    قاصر ہے پہنچنے سے وہاں پیک خبر بھی

    منزل عدم آباد کی آسان ہے اتنی

    رفتار کی ہوتی نہیں رہرو کو خبر بھی

    ہیبت ہے ابھی تک یہ ہماری شب غم کی

    کافور ہوا جاتا ہے کافور سحر بھی

    یہ رعب ہے چھایا ہوا شام شب غم کا

    دیتا نہیں آواز بجانے سے گجر بھی

    احباب مرے غسل و کفن سے ہوئے فارغ

    لو اب تو مہیا ہوئے سامان سفر بھی

    گھبرا کے کہو کیا کریں اب کنج لحد میں

    ہم کو تو یہیں شام بھی کرنی ہے سحر بھی

    اے عرشؔ وہ دم خم وہ کہاں جوش ہے باقی

    اک موت ہے تسلیمؔ کے مرنے کی خبر بھی

    منزل عدم آباد کی دشوار ہے اے عرشؔ

    لازم ہے مسافر کے لئے زاد سفر بھی

    مأخذ :
    • کتاب : کلیات عرش (Pg. 122)
    • Author : علامہ سید ضمیرالدین احمد
    • مطبع : فائن آرٹ پریس (1932)
    • اشاعت : Second

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے