ہے تقاضۂ محبت نہ اٹھے سر آستاں سے
ہے تقاضۂ محبت نہ اٹھے سر آستاں سے
جہاں عقل تک نہ پہنچے میں گزر گیا وہاں سے
تو ہے جانشین حیدر تو ہے مرکز سخاوت
تو نے کس قدر نوازا مجھے لطف بیکراں سے
مجھے دی ہے اپنی چاہت یہ کرم یہ مہربانی
میں ادائے شکر تیرا کروں کون سی زباں سے
وہی خوب جانتا ہے میرا مقصد تمنا
نہ اٹھائے کوئی چلمن میرے ان کے درمیاں سے
مجھے جب سے ہو گئی ہے در یار سے محبت
مجھے دیکھتی ہے دنیا اب نگاہ بد گماں سے
میں نایابؔ وارثی ہوں کہ سراپا راز الفت
میرا حال ہوگا ظاہر کبھی مرگ ناگہاں سے
- کتاب : تذکرہ شعرائے وارثیہ (Pg. 210)
- مطبع : فائن بکس پرنٹرس (1993)
- اشاعت : First
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.