وقفِ الفت ہو بروئے کار آئے دل کرے
وقفِ الفت ہو بروئے کار آئے دل کرے
آدمی کچھ تو حقوقِ زندگی حاصل کرے
وہ نگاہِ ناز مجھ کو بستۂ مشکل کرے
جو بیک گردش مہ نو کو مہ کامل کرے
دل کو کیا کیا حسرتیں ہیں قربِ حسن دوست کی
پہلے یہ دیوانہ اپنا قرب تو حاصل کرے
دین و دنیا سے ہوئے بیگانہ ہم اچھا ہوا
آرزوئے دید سے بھی اب خدا غافل کرے
میں توجہ بھی کروں تو رخ زمانہ پھیر لے
وہ تغافل بھی کرے تو دید کے قابل کرے
رازِ فطرت تو یوں ہی ہوتے ہیں اکثر منکشف
عقدۂ مشکل کو انساں اور بھی مشکل کرے
دل کے ہاتھوں میری بربادی ہے عبرت کا مقام
شاید آئندہ نہ کوئی آرزوئے دل کرے
سجدۂ شکرانہ سب کچھ ہے سمجھانے کے لئے
کون منزل پر پہہنچ کر شکوۂ منزل کرے
جان پر تو توبن رہی ہے اشتیاقِ دید میں
اور کیا مجبور فطرت سے زیادہ دل کرے
امتیازِ نیک و بد ہی بے خودی نے کھودیا
جس کو فرصت حال سے ہو فکرِ مستقبل کرے
کس لئے حیدرؔ مری شاہد پرستی ناگوار؟
میری وہ دنیا نہیں جو دین سے غافل کرے !
- کتاب : ماہنامہ الہام، دہلی (Pg. 3)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.