حیف تو چمکا نہ داغ اس دل کے رہ کر آگ میں
حیف تو چمکا نہ داغ اس دل کے رہ کر آگ میں
کوئلہ تو ہاں دہک جاتا ہے اکثر آگ میں
عشق کی دولت دل مضطر کا ہے گھر آگ میں
کیوں نہ ہو اکسیر پارہ کشتہ ہو گر آگ میں
تن پہ گل کھا کر ہوں میں سرو چراغاں عشق میں
اے چنار باغ اپنی تو جلا کر آگ میں
آئینے میں دیکھ ٹک خال لب گلنار کو
معجزے سے حسن کے چمکے ہے اختر آگ میں
چشم تر لخت دل سوزاں سے آنسو کو بجھا
طفل ابتر ڈال دے ہے ہاتھ اکثر ہاتھ میں
مجمر آتش ہمارا سینۂ پر داغ ہے
یوں ہے دل محو تماشا ہو کے خوشتر آگ میں
دیکھتے تھے تختۂ گل ہائے آتش کی بہار
جس طرح یارو خلیل اللہ پیمبر آگ میں
اہل جوہر کیا عجب ہے ہوں جو سرگرم ستم
آہن فولاد کا بنتا ہے خنجر آگ میں
مصھف رخسار جاناں کے ہے بوسے کا سبب
جو نہیں جلتی ہے تو اے زلف کافر آگ میں
ورنہ ہر زنار دار ہندوئے آتش پرست
عاقبت دیکھا ہے یہ پھنکتا ہے مر کر آگ میں
ہوں گرفتار قفس اے شعلۂ آواز دیکھ
مت جلا دینا کہیں تو بال اور پر آگ میں
جوں جوں روتا ہوں بھڑکتی آتش دل ہے دو چند
کار روغن کہ نہ اشک دیدۂ تر آگ میں
اے دل اس چاہ ذقن میں گر کے تو پیرا کیا
بے تامل کود پڑتے ہیں دلاور آگ میں
آتشیں رخ پر ترے دیکھے عرق آلود خط
جس نے گر سبزہ کبھو دیکھا نہ ہو تر آگ میں
کوچۂ دل دار تو فردوس ہے پیک صبا
اڑ کے پہنچے نامہ بر میرا کبوتر آگ میں
پر کرامت ہے قبائے سرخ میں تیری کمر
ورنہ مو ثابت نہیں رہتا ہے دلبر آگ میں
گھر سے اپنے ہو کے مضطر دوڑتا وہ شعلہ خو
میں جلاتا نقش جب گر کوئی لکھ کر آگ میں
گر پلا دوں زاہدا تجھ کو مئے دو آتشہ
پھینک دے تو یک قلم تقویٰ کا دفتر آگ میں
غرق آب شرم ہو سد سکندر دیکھ کر
ریختے کا گھر بنا تو وہ سخن ور آگ میں
تن طبع غم سے تنور گرم ہے کس سے کہوں
کون پڑتا ہے کسی کی دیدۂ تر آگ میں
داغ سے پھکتا جگر ہے آتش ہجراں سے دل
اپنی اپنی لو میں جلتے ہیں برابر آگ میں
فی الحقیقت ہے کہ صرافان بازاری نصیرؔ
سیم و زر کو مول لیتے ہیں تپا کر آگ میں
- کتاب : کلیات شاہ نصیرؔ مرتب: تنویر احمد علوی (Pg. 297)
- Author : شاہ نصیرؔ
- مطبع : مجلس ترقی ادب، لاہور (1971)
- اشاعت : First
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.