ہیں شوق ذبح میں عاشق تڑپتے مرغ بسمل سے
ہیں شوق ذبح میں عاشق تڑپتے مرغ بسمل سے
اجل تو ہی ذرا کہہ آنا یہ پیغام قاتل سے
قیامت ہو گئی برپا تہ و بالا ہوا عالم
لگی وہ آگ دنیا میں ہماری سوزش دل سے
تصور جم گیا جس دم تو پھر وہ کیا اکھڑتا ہے
نہ ہوگی محو صورت اس کی اب آئینہ دل سے
جسے دیکھا مسخر کر لیا تو نے اسے کافر
تری آنکھوں کا جادو کم نہیں سحر بابل سے
فنا کے بعد بھی باقی رہے گا شور و زور اپنا
نہیں جانے کا مر کر بھی ہمارا ولولہ دل سے
زکاۃ حسن اک بوسہ ان آنکھوں کا عنایت ہو
بر آئے گی مری حاجت تو نکلے گی دعا دل سے
سوا تیرے نہیں مطلوب کوئی چیز دنیا میں
ہے مطلب جاں سے کس کو کسے ہے مدعا دل سے
ستم کش میں ہوں اور وہ ناز پروردہ نزاکت میں
انہیں کیا واقفیت ہو مری بیتابیٔ دل سے
کوئی رشک گلستاں ہے تو کوئی غیرت گلشن
ہوئے کیا کیا حسیں گلچھرہ پیدا آب و گل سے
ہے اس سے روشنیٔ بزم تجھ سے رونق عالم
ترے رخ کو نہیں اے ماہ نسبت شمع محفل سے
صدائے زنگ سے نالہ اگر مجنوں کا پیدا ہو
عجب کیا گر پڑے غش کھا کے لیلیٰ اپنے محمل سے
بجز آواز زنجیر گراں کچھ خوش نہیں آتا
یہاں تک بھر گئے ہیں کان آواز سلاسل سے
- کتاب : شاہ اکبرؔ داناپوری حیات اور شاعری (Pg. 75)
- Author : طلحہ رضوی برقؔ
- مطبع : لیبل لیتھو پریس، پٹنہ (1985)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.