ہمارے مہ جبیں کو شوق ہے زلفیں بنانے کا
ہمارے مہ جبیں کو شوق ہے زلفیں بنانے کا
فلک تو پنجۂ خورشید سے لے کام شانے کا
ملا کیا حضرت آدم کو پھل جنت سے آنے کا
نہ کیوں اس غم سے سینہ چاک ہو گندم کے دانے کا
کروں ہوں قصد ہاتھ اس زلف کو جب میں لگانے کا
تو دل کہتا ہے ہے یہ کام منہ پر مار کھانے کا
یہ کیا ہے کہکشاں اس کو نہیں کوئی بتانے کا
نشاں ہے پشت شبدیز فلک پر تازیانے کا
دل مجروح کو دکھلا نہ تاب چہرۂ روشن
کہ زخمی کو مضر ہے چاندنی کے مار جانے کا
نہیں سائے کی کچھ حاجت سیہ کاروں کے مرقد پر
کرے ہے ابر رحمت کام دیکھو شامیانے کا
دلاؤ یاد اس چشم مفتن کی نہ ہم چشمو
نہیں میں فتنۂ خوابیدہ کو ہرگز جگانے کا
وہ ہے معجز نما گیسو میں عکس تاب رو تیرا
ید بیضا سے ہمسر بن گیا ہے ہات شانے کا
وہ آئینے میں کیا عکس رخ گلنار دیکھے ہے
ہنر ہے یاد اس کو آگ پانی میں لگانے کا
نہیں رکھتی ہے یہ فکر معیشت کس کو گردش میں
کہ سنگ آسیا بھی ہے سدا محتاج دانے کا
دکھانا ہے تو دکھلا بام پر ٹک جلوۂ صورت
قیامت کو نہیں کوئی کسی کے کام آنے کا
نصیرؔ اس بحر میں اب دوسری لکھ کر غزل پڑھیے
تمہارا کام ہے مضمون نو کے باندھ لانے کا
- کتاب : کلیات شاہ نصیرؔ مرتب: تنویر احمد علوی (Pg. 159)
- Author : شاہ نصیرؔ
- مطبع : مجلس ترقی ادب، لاہور (1971)
- اشاعت : First
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.