ہمیں زمانہ ہوا اُن سے دل لگائے ہوئے
ہمیں زمانہ ہوا ان سے دل لگائے ہوئے
عدم سے آئے ہیں سر پر یہ بوجھ اٹھائے ہوئے
مجھی سے چلتے ہیں چالیں مرے سکھائے ہوئے
مٹانے آئے ہیں مجھ کو مرے بنائے ہوئے
شب وصال سحر ہو گئی وہ جاتے ہیں
میں دونوں ہاتھوں سے بیٹھا ہوں دل دبائے ہوئے
غضب ہوا کے بھڑک اٹھی آتش الفت
یہ آگ سینے میں تھے کب سے ہم دبائے ہوئے
اشارہ کیجیے تیغ نگہ کو دیر ہے کیا
یہ کشتنی ہیں کھڑے گردنیں جھکائے ہوئے
ازل سے یہ دل مجروح ہے شکار ان کا
ہم آج کل سے نہیں تیر عشق کھائے ہوئے
ہمارے دل میں ہے شمع رخ صنم روشن
چراغ دیر سے ہیں ہم تو لو لگائے ہوئے
دکھا دو اک جھلک پھر جمال روشن کی
ہم آج ہوش میں ہیں مدتوں پرائے ہوئے
جچے نظر میں بھلا اپنی کیا حسین کوئی
نگاہ میں تو مری آپ ہیں سمائے ہوئے
جہاں میں عید تھی کل جن کی دید کی اکبرؔ
پڑے ہیں آج لحد میں وہ منہ چھپائے ہوئے
- کتاب : تجلیات عشق (Pg. 312)
- Author :شاہ اکبر داناپوری
- مطبع : شوکت شاہ جہانی، آگرہ (1896)
- اشاعت : First
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.