فنا ہو کر ہم آغوش بقا ہوتا تو کیا ہوتا
فنا ہو کر ہم آغوش بقا ہوتا تو کیا ہوتا
جو قطرہ تھا وہ دریا آشنا ہوتا تو کیا ہوتا
خودی پر آپ کو کیا کیا سمجھتا ہے خدا سمجھے
یہ بندہ بے خودی سے با خدا ہوتا تو کیا ہوتا
قیامت سے نہیں کم انتظار وصل کی مدت
خدا جانے کہیں وعدہ وفا ہوتا تو کیا ہوتا
شفقؔ ہے نیستی پھر بھی بشر کو دعوی ہستی
نہ ہونے پر یہ عالم ہے بھلا ہوتا تو کیا ہوتا
- کتاب : تذکرہ شعرائے اتر پردیش جلد گیارہویں (Pg. 173)
- Author : عرفان عباسی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.