ایک ایسی بھی تجلی اس دل مضطر میں ہے
ایک ایسی بھی تجلی اس دل مضطر میں ہے
مہر جس سے ماہ روشن اور چمک اختر میں ہے
اس لیے بھی لازم و ملزوم ہے یہ سنگ و سر
کچھ مرے سر میں ہے سودا اور کچھ پتھر میں ہے
ہاتھ دھو بیٹھے ہیں اپنے دیں سے شیخ و برہمن
جانے کیا اعجاز اس چشم پری پیکر میں ہے
مہ وش ارض و سماں میں آج تک محبوس ہوں
آج تک میری صدا اس گنبد بے در میں ہے
یہ سبھی فیضان چشم مست کا ہے زاہدو
جو سبو میں ہے جو پیمانوں میں ہے ساگر میں ہے
خاک ون میں چھانتا ہے جس کو کہتے تھے مگر حسنؔ
کہہ دیا کس نے کہ وہ دیوانہ اپنے گھر میں ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.