اشک سب زخم کھرچ کر نکل آئے ہیں مرے
اشک سب زخم کھرچ کر نکل آئے ہیں مرے
میں تو سمجھا تھا رفوگر نکل آئے ہیں مرے
دیکھیے آپ کی خاطر میں نے کیا کیا نہ کیا
پاؤں چادر سے بھی باہر نکل آئے ہیں مرے
وہ جو کہتا تھا کہ پیغام نہیں ملتے مجھے
اس کے آنگن سے کبوتر نکل آئے ہیں مرے
کیسے انکار ہو جب قالو بلیٰ کی صورت
دستخط بھی سر محشر نکل آئے ہیں مرے
وہ جو آتش زدہ الفاظ ادا کر نہ سکا
آبلے بن کے زباں پر نکل آئے ہیں مرے
ان کو شاید نہیں اندازہ ریاضت کا مری
کر کو لگتا ہے کہ اب پر نکل آئے ہیں مرے
سوچتا ہوگا فلک دیکھ کے پرواز بشر
یہ زمیں زاد برابر نکل آئے ہیں مرے
کس کی آواز پہ لبیک کہا میں نے جمالؔ
خود بہ خود پاؤں سفر پر نکل آئے ہیں مرے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.