پردے سے اک جھلک جو وہ دکھلا کے رہ گئے
پردے سے اک جھلک جو وہ دکھلا کے رہ گئے
مشتاق دید اور بھی للچا کے رہ گئے
گم کردہ راہ عشق فنا کیوں نہ ہو گیا
احساں جو اس پہ خضر و مسیحا کے رہ گئے
آئینے میں وہ دیکھ رہے تھے بہار حسن
آیا مرا خیال تو شرما کے رہ گئے
جب عاشقوں سے صدمۂ ہجراں نہ اٹھ سکا
آخر کو ایک روز وہ سم کھا کے رہ گئے
جب وہ چھٹا تو کچھ نہ رہا دل میں اک مگر
داغ فراق اس گل رعنا کے رہ گئے
ملنے کی ان سے ایک بھی صورت نہ بن پڑی
سارے مسودے دل دانا کے رہ گئے
بے باک تھا زبسکہ مرا اضطراب شوق
شرما کے وہ کبھی کبھی جھنجھلا کے رہ گئے
دل کی لگی بجھا بھی وہ سکتے تو بات تھی
یہ کیا ہوا کہ آگ ہی بھڑکا کے رہ گئے
آئے بھی وہ چلے بھی گئے وہ مثال برق
دل ہی میں حوصلے دل شیدا کے رہ گئے
کیا دل میں آ گئی جو ز راہ کمال رحم
دعویٰ وہ میرے قتل کا فرما کے رہ گئے
پہلے تو خون میرا بہایا خوشی خوشی
پھر کیا وہ خود ہی سوچے کہ پچھتا کے رہ گئے
دعویٰٔ عاشقی ہے تو حسرتؔ کرو نباہ
یہ کیا کہ ابتدا ہی میں گھبرا کے رہ گئے
- کتاب : کلیات حسرت موہانی (Pg. 195)
- Author : حسرت موہانی
- مطبع : مکتبہ اشاعت اردو، دہلی (1959)
- اشاعت : First
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.