محبت کے عوض رہنے لگے ہر دم خفا مجھ سے
محبت کے عوض رہنے لگے ہر دم خفا مجھ سے
کہو تو ایسی کیا سرزد ہوئی آخر خطا مجھ سے
ملیں بھی وہ تو کیونکر آرزو بر آئے گی دل کی
نہ ہوگا خود خیال ان کو نہ ہوگی التجا مجھ سے
قرار آتا نہیں دل کو کسی عنوان پہلو میں
ہوا ہے آشنا جب سے وہ کافر ماجرا مجھ سے
غنیمت ہے جہان عاشقی میں ذات دونوں کی
کہ نام جور قائم تم سے ہے رسم وفا مجھ سے
فلک سے بھی ہے کیا بڑھ کر بلندی بام جاناں کی
یہ پوچھا کرتی ہے اکثر مری آہ رسا مجھ سے
مگر سیر چمن کو آج وہ پھر آنے والے ہیں
ابھی کچھ کہہ رہی تھی کان میں باد صبا مجھ سے
محبت بھی عجب شے ہے کہ با وصف شناسائی
نہیں ہوتی مخاطب وہ نگاہ آشنا مجھ سے
سکون قلب کی امید اب کیا ہو کہ رہتی ہے
تمنا کی دو چار اک ہر گھڑی برق بلا مجھ سے
تقاضہ ہے یہی خوئے نیاز عشق بازی کا
نہ ہوگا اس سراپا ناز کا حسرتؔ گلا مجھ سے
- کتاب : کلیات حسرت موہانی (Pg. 254)
- Author : حسرت موہانی
- مطبع : مکتبہ اشاعت اردو، دہلی (1959)
- اشاعت : First
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.