ہوش لازم ہے یہ مجمع عام ہے
ہوش لازم ہے یہ مجمع عام ہے
بام ہے اے جلوہ افگن بام ہے
کیوں بیاں کرتا ہے لذات سحر
دیکھ اے رہرو ابھی تو شام ہے
زیست میری اور یہ ایام فراق
اے امید وصل تیرا کام ہے
ہم کو ناکام محبت کیوں کہو
مرگ ناکامی ہمارا کام ہے
اب تو آ جاؤ کہ ہے صبح فراق
اب تو آ جاؤ کہ میری شام ہے
شاہدوں میں بھی اشارے ہم پہ ہیں
عاشقوں میں بھی ہمارا نام ہے
پردے والوں سے تغافل کا گلہ
کیوں کروں جب لذت آلام ہے
حادثات ہجر میں سر دے دیا
واقعات دل کا سرانجام ہے
بسملوں کا دل مگر دیکھا نہیں
تیغ کو کہتے ہو خوں آشام ہے
عاشقی اور عقل کی پابندیاں
سچ یہ ہے میکشؔ تمہارا کام ہے
- کتاب : میکدہ (Pg. 39)
- Author : میکشؔ اکبرآبادی
- مطبع : آگرہ اخبار، آگرہ (1931)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.