کھنچے آتے ہیں زاہد مسجدوں سے سوئے مے خانہ
کھنچے آتے ہیں زاہد مسجدوں سے سوئے مے خانہ
کسی کی چشم میگوں کا رہے گردش میں پیمانہ
تو اپنے عشق میں ایسا بنا دے مجھ کو دیوانہ
کہ آبادی سے وحشت ہو کروں آباد ویرانہ
مرید پیر مے خانہ ہوئے قسمت سے اے ناصح
نہ جھاڑیں شوق میں پلکوں سے ہم کیوں صحن مے خانہ
جہان بیخودی میں مستیٔ وحدت جو لے جائے
فرشتے لیں قدم میرے وہ ہوں میں رند مستانہ
سنا ہے میں نے غواصان دریائے حقیقت سے
وہ ہے بحر دو عالم میں در مکنون یکدانہ
جناب عشق کی چشم عنایت نے جسے تاکا
ہوا مرد یگانہ چھوٹے اس سے خویش و بیگانہ
نظر آئے جو اک جلوہ ترا دیر برہمن میں
تو ٹوٹے شیخ کا تقویٰ کہ قبلہ ہو صنم خانہ
قبائے زندگی ہی تنگ ہے جب جسم انساں پر
تو پھر کیا فائدہ رکھنے سے سر پر تاج شاہانہ
پھنسے ہیں قدسیوں کے دل رہائی ہو نہیں سکتی
کہ دام زلف ان کو ہو گیا زنجیر کا دانہ
سراپا دے کے عاجزؔ نام کرنا عشق بازوں میں
کہ مرنے پر ترا باقی رہے دنیا میں افسانہ
- کتاب : دیوان عاجزؔ مسمیٰ بہ فیض روح القدس (Pg. 66)
- Author : ابراہیم عاجز
- مطبع : نامی پریس، لکھنؤ
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.