حسن شیدا ہے کسی کے عارض پر نور پر
حسن شیدا ہے کسی کے عارض پر نور پر
کیوں نہ پھر صدقے ہوں پریاں ایسے رشک حور پر
کیا نظر کی ہو رسائی قدسیان آسماں
ہے جھکے پروانہ ساں شمع رخ پر نور پر
اللہ اللہ آئینہ وہ دیکھ کر فرماتے ہیں
زلف عارض پر نہیں ہے مشک ہے کافور پر
واہ اے برق تجلی مجھ سے یہ دامن کشی
ہوش موسیٰ کو جلایا تو نے کوہ طور پر
زخم خنداں شکر میں مصروف ہے اے چارہ گر
جب سے پھاہا تو نے رکھا سینہ کے ناسور پر
وہ رخ روشن ہے شمع طور قد ہے نخل طور
نور کے دو قمقمے تاباں ہیں نخل طور پر
اس کے کوچہ گرد کیا سمجھیں زر و دولت کو مال
طعنہ زن ادنیٰ گدا ہے قیصر و فغفور پر
فانی حق کا انا کیا تھا انا فرعون کا
دار کی تعزیر کیوں واجب ہوئی منصور پر
زہد صد سالہ ہوا ہے جب نہ ہو تائید حق
ڈالو عبرت کی نظر تم بلعم باعور پر
کشتگان شوق عاجزؔ گوش بر آواز ہیں
وعدۂ دیدار ٹھہرا ہے جو شور صور پر
- کتاب : دیوان عاجزؔ مسمیٰ بہ فیض روح القدس (Pg. 57)
- Author : ابراہیم عاجز
- مطبع : نامی پریس، لکھنؤ (1934)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.