عشق میں حال جہاں نوع دگر ہونے لگا
اے پری دیوانہ تجھ پر ہر بشر ہونے لگا
حسن سے آگاہ اب وہ بے خبر ہونے لگا
آئینہ جو اس کو منظور نظر ہونے لگا
رونق افزا بام پر وہ بیشتر ہونے لگا
بند مارے بھیڑ کے اب رہ گزر ہونے لگا
گوش زد جس کے ہوا سر-گشتگی کا میری حال
انگلیاں کانوں میں دیں دوران سر ہونے لگا
اک نہ اک ایذا رہی ہر دم بدولت عشق کے
درد دل اچھا ہوا درد جگر ہونے لگا
وصل کی شب ہو چکی پیدا ہوئے آثار صبح
پار دل کے نالۂ مرغ سحر ہونے لگا
جس نے موتی گوش میں دیکھا ترے کہنے لگا
ہے تماشا کان سے پیدا گہر ہونے لگا
مے کشی موقوف جام و شیشہ رکھ بالائے طاق
رنگ محفل ساقیا نوع دگر ہونے لگا
روئے انور پر ہوا آغاز خط رو سیاہ
یہ بڑا اندھیر اے رشک قمر ہونے لگا
میرے مرنے کی جو دی اس حور کو جا کر خبر
سنتے ہی ارشاد فی النار و سقر ہونے لگا
جھولنے کو جب ہنڈولے پر چڑھا وہ رشک مہر
میں یہ سمجھا آسماں زیرو زبر ہونے لگا
شعر سن کر مدعی مرنے لگے کٹنے لگے
اب سخن میں میرے سیفی کا اثر ہونے لگا
لے کے دل صورت چھپانے سے بھلا کیا فائدہ
بے مروت اب تو جانوں کا ضرر ہونے لگا
عرش تک جس دن گئی آہ رسا سن لیجو رندؔ
عالم بالا میں شور الحذر ہونے لگا
مأخذ :
- کتاب : دیوان رند (Pg. 23)
- Author : سید محمد خان رندؔ
-
مطبع : منشی نول کشور، لکھنؤ
(1931)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.