Font by Mehr Nastaliq Web
Sufinama

عشق میں حال جہاں نوع دگر ہونے لگا

رند لکھنوی

عشق میں حال جہاں نوع دگر ہونے لگا

رند لکھنوی

MORE BYرند لکھنوی

    عشق میں حال جہاں نوع دگر ہونے لگا

    اے پری دیوانہ تجھ پر ہر بشر ہونے لگا

    حسن سے آگاہ اب وہ بے خبر ہونے لگا

    آئینہ جو اس کو منظور نظر ہونے لگا

    رونق افزا بام پر وہ بیشتر ہونے لگا

    بند مارے بھیڑ کے اب رہ گزر ہونے لگا

    گوش زد جس کے ہوا سر-گشتگی کا میری حال

    انگلیاں کانوں میں دیں دوران سر ہونے لگا

    اک نہ اک ایذا رہی ہر دم بدولت عشق کے

    درد دل اچھا ہوا درد جگر ہونے لگا

    وصل کی شب ہو چکی پیدا ہوئے آثار صبح

    پار دل کے نالۂ مرغ سحر ہونے لگا

    جس نے موتی گوش میں دیکھا ترے کہنے لگا

    ہے تماشا کان سے پیدا گہر ہونے لگا

    مے کشی موقوف جام و شیشہ رکھ بالائے طاق

    رنگ محفل ساقیا نوع دگر ہونے لگا

    روئے انور پر ہوا آغاز خط رو سیاہ

    یہ بڑا اندھیر اے رشک قمر ہونے لگا

    میرے مرنے کی جو دی اس حور کو جا کر خبر

    سنتے ہی ارشاد فی النار و سقر ہونے لگا

    جھولنے کو جب ہنڈولے پر چڑھا وہ رشک مہر

    میں یہ سمجھا آسماں زیرو زبر ہونے لگا

    شعر سن کر مدعی مرنے لگے کٹنے لگے

    اب سخن میں میرے سیفی کا اثر ہونے لگا

    لے کے دل صورت چھپانے سے بھلا کیا فائدہ

    بے مروت اب تو جانوں کا ضرر ہونے لگا

    عرش تک جس دن گئی آہ رسا سن لیجو رندؔ

    عالم بالا میں شور الحذر ہونے لگا

    مأخذ :
    • کتاب : دیوان رند (Pg. 23)
    • Author : سید محمد خان رندؔ
    • مطبع : منشی نول کشور، لکھنؤ (1931)

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے