اضطراب عاشقی پھر کار فرما ہو گیا
اضطراب عاشقی پھر کار فرما ہو گیا
صبر میرا نا شکیبائی سراپا ہو گیا
سادگی ہائے تمنا کے مزے جاتے رہے
ہو گئے مشتاق ہم اور وہ خود آرا ہو گیا
وائے ناکامی نہ سمجھا کون ہے پیش نظر
میں کہ حسن یار کا محو تماشا ہو گیا
نوجوانی تھی کوئی شیدا نہ تھا میرے سوا
ایک حسن کار کا وہ بھی زمانہ ہو گیا
شورشیں جاتی رہیں وہ آرزوئے وصل کی
رنج دوری مرہم زخم تمنا ہو گیا
سحر وہ کیا تھا نگاہ آشنائے یار میں
جو دل بیمار کے حق میں مسیحا ہو گیا
ضبط سے راز محبت کا چھپانا تھا محال
شوق گر پنہاں ہوا غم آشکارا ہو گیا
ہے زبان لکھنؤ میں رنگ دہلی کا نمود
تجھ سے حسرتؔ نام روشن شاعری کا ہو گیا
- کتاب : کلیات حسرت موہانی (Pg. 103)
- Author : حسرت موہانی
- مطبع : مکتبہ اشاعت اردو، دہلی (1959)
- اشاعت : First
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.