ذرا سی بات تھی حالات جو کشیدہ ہوئے
ذرا سی بات تھی حالات جو کشیدہ ہوئے
میں سوچتا رہا احباب کیوں کبیدہ ہوئے
کرم ہے جن پہ کرو بات ایسے لوگوں کی
ہمارا کیا ہے میاں ہم ستم رسیدہ ہوئے
ہر آدمی ہمیں پڑھتا ہے اس طرح گویا
نئی کتاب ہوئے ہم نیا جریدہ ہوئے
قصور کوئی نہیں ہے بہار کا اس میں
شمیم چھوٹی چمن سے تو گل بریدہ ہوئے
اسی خیال سے ہم حالِ غم نہیں کہتے
ہمارے ساتھ اگر تم بھی آب دیدہ ہوئے
جو لفظ سوچے مگر ان سے کہہ سکے نہ کبھی
غزل ہوئے وہ رباعی ہوئے قصیدہ ہوئے
کسی پہ کیسے یہ الزام آئے گا کہ جمیلؔ
ہمارے قتل کے خود ہم ہی چشم دیدہ ہوئے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.