جی بہلتا ہی نہیں سانس کی جھنکاروں سے
جی بہلتا ہی نہیں سانس کی جھنکاروں سے
پھوڑ لوں سر نہ کہیں جسم کی دیواروں سے
اپنے رستے ہوئے زخموں پہ چھڑک لیتا ہوں
راکھ جھڑتی ہے جو احساس کے انگاروں سے
گیت گاؤں تو لپک جاتے ہیں شعلے دل میں
ساز چھیڑوں تو نکلتا ہے دھواں تاروں سے
کاسۂ سر لیے پھرتی ہیں وفائیں اب بھی
اب بھی تیشوں کی صدا آتی ہے کہساروں سے
زندہ لاشیں بھی دکانوں میں سجی ہیں شاید
بوئے خوں آتی ہے کھلتے ہوئے بازاروں سے
کیا مرے عکس میں چھپ جائیں گے ان کے چہرے
اتنا پوچھے کوئی ان آئنہ برداروں سے
پیار ہر چند جھلکتا ہے ان آنکھوں سے مگر
زخم بھرتے ہیں مظفرؔ کہیں تلواروں سے
- کتاب : کاروان غزل (Pg. 217)
- مطبع : فرید بک ڈپو (2004)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.