جسے تجلیٔ جاناں سے آگہی نہ ہوئی
جسے تجلیٔ جاناں سے آگہی نہ ہوئی
وہ زندگی تو ہوئی اصل زندگی نہ ہوئی
وہ کیا حیات ہے جو ترک بندگی نہ ہوئی
چراغ جلتا رہا اور روشنی نہ ہوئی
تیرے مزاج میں ایک دن بھی برہمی نہ ہوئی
خوشی کی بات تھی لیکن مجھے خوشی نہ ہوئی
شہید ناز کا رتبہ کسی کو کیا معلوم
کسی سرشت میں تخلیق سرمدی نہ ہوئی
مجھے سکون کی دنیا نہ مل سکی اب تک
میری جبیں پے سجدہ جو مکتبی نہ ہوئی
قدم قدم پہ رہی ایک یاد دامن گیر
تمہاری بزم میں یہ مجھ کو بے خودی نہ ہوئی
نگار خانوں میں کیا کیا سکون دل کو ملا
یہ اور بات ہے تسکین دائمی نہ ہوئی
جہاں بھی دیکھا جدھر دیکھا آپ کو دیکھا
میں کیوں کہوں کہ یہ معراج عاشقی نہ ہوئی
تمام عمر گزاری ہے میکدے میں مگر
وہ رند ہوں کہ طبیعت کو سیری نہ ہوئی
ایک آپ ہی انسانیت کے پیکر ہیں
یہ ایک فریب ہوا قدر آدمی نہ ہوئی
مشاعروں کی فضا تک ہو چکا لطف و سرور
عزیز وارثیؔ ہم سے وہ شاعری نہ ہوئی
- کتاب : تذکرہ شعرائے وارثیہ (Pg. 159)
- مطبع : فائن بکس پرنٹرس (1993)
- اشاعت : First
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.