جو تھے ہاتھ مہندی لگانے کے قابل
جو تھے ہاتھ مہندی لگانے کے قابل
ہوئے آج خنجر اٹھانے کے قابل
عنادل بھی کلیاں بھی گل بھی صبا بھی
یہ صحبت ہے ہنسنے ہنسانے کے قابل
حنا بن کے میں چوم لوں دست نازک
ترے ہاتھ میں رنگ لانے کے قابل
جوانی کا اب رنگ کچھ آ چلا ہے
وہ اب ہو چلے ہیں ستانے کے قابل
مجھے دیکھ کر دخت رز تن رہی ہے
یہ کھینچ کر ہوئی ہے اڑانے کے قابل
قیامت میں دیکھیں گے کیوں کر انہیں ہم
نہیں شرم سے آنکھ اٹھانے کے قابل
بنائیں نہ اب اس کو اب شمع محفل
جلا دل نہیں ہے جلانے کے قابل
چمن میں اڑا ان کو اے باد صرصر
مرے ٹوٹے پر ہیں اڑانے کے قابل
بنے شعلے بجلی کے قسمت سے میری
جو تنکے تھے کچھ آشیانے کے قابل
بڑھاپے میں ثابت ہوئے دزد مے ہم
نہ آنے کے قابل نہ جانے کے قابل
یہ کہتی ہے حضرت کی ریش حنائی
ریاضؔ اب بھی ہیں رنگ لانے کے قابل
- کتاب : ریاض رضواں (Pg. 283)
- Author : ریاضؔ خیرآبادی
- مطبع : کتاب منزل،لاہور (1961)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.