کب نشاں میرا کسی کو شب ہستی میں ملا
کب نشاں میرا کسی کو شب ہستی میں ملا
میں تو جگنو کی طرح اپنی ہی مٹھی میں ملا
بھاگ نکلا تھا جو طوفاں سے چھڑا کر دامن
سر ساحل وہی ڈوبا ہوا کشتی میں ملا
آنکھ روشن ہو تو دنیا کے اندھیرے کیا ہیں
رستہ مہتاب کو راتوں کی سیاہی میں ملا
میں جلاتا رہا تیرے لیے لمحوں کے چراغ
تو گزرتا ہوا صدیوں کی سواری میں ملا
تو نے منگتوں کو اچٹتی ہوئی نظریں بھی نہ دیں
ہاتھ پھیلایا نہ جس نے اسے جھولی میں ملا
میں اک آنسو ہی سہی ہوں بہت انمول مگر
یوں نہ پلکوں سے گرا کر مجھے مٹی میں ملا
محفلوں میں کیا لوگوں نے مظفرؔ کی تلاش
وہ بھٹکتا ہوا افکار کی وادی میں ملا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.